Monday 19 September 2022

Share

شیاطین سے حفاظت کی دعا المؤمنون 97-98 
 رَّبِّ اَعُوْذُ بِكَ مِنْ هَمَزٰتِ الشَّیٰطِیْنِۙ وَ اَعُوْذُ بِكَ رَبِّ اَنْ یَّحْضُرُوْنِ 
 پروردگار، میں شیاطین کی اکساہٹوں سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔ بلکہ اے میرے رب، میں تو اس سے بھی تیری پناہ مانگتا ہوں کہ وہ میرے پاس آئیں۔


Watch "آج کا قرآنی لفظ الْجِنَّةِ آیت6 سورۃ الناس Today Quranic Root Word ج ن ن" on YouTube







Photo from MMA



Saturday 12 February 2022

*فرشتہ نما انسان* 

آج مجھے اپنی زندگی کی پہلی کمائی ملنے والی تھی. تین ماہ کی تنخواہ ایک ساتھ  ملی اور ساتھ چھٹی بھی مل گئی.  گھر پہنچا تو عید کا سماں تھا.  ماں باپ بہن بھائی سب بہت خوش تھے. میں نے ساری رقم والدہ کے ہاتھ پر رکھ دی.  والدہ نے رقم کا تیسرا حصہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی نیت سے علیحدہ کیا اور کہا کہ اس رقم سے ایک بیوہ عورت کے گھر راشن خرید کر پہنچا دینا جو دور کے ایک محلے میں رہتی تھی.  میں اسی وقت گیا اور راشن خرید کر لایا. گھر میں میرے لئے پر تکلف طعام کا انتظام کیا گیا تھا.  بہن بھائیوں کے ساتھ مل کر لذیذ کھانوں کے مزے اڑائے اور سفر کی تھکاوٹ دور کرنے کی غرض سے رضائی میں گھس گیا.  آنکھیں نیند سے بوجھل ہو رہی تھیں کہ اچانک اس بیوہ عورت اور اس کے یتیم بچوں کا خیال آیا. ارادہ کیا کہ ابھی جاؤں اور سامان پہنچا آؤں، طبیعت میں سُستی تھی سوچا کل پہنچا دوں گا.  لیکن بعد میں خیال آیا میں تو پر تکلف کھانے کا مزا لے چکا کہیں وہ بچے بھوکے نہ ہوں.  اسی وقت لحاف سے نکلا,  ایک چادر اوڑھی،تھیلا کاندھے پر رکھا  اور اس کے گھر کی طرف نکل پڑا.  
شدید سردی تھی,  دھند بھی زیادہ تھی اور بھاری تھیلا اٹھانے میں بھی کچھ دقت ہو رہی تھی. ایک دور محلے میں اس عورت کا گھر تھا.اس کا شوہر مزدوری کرتا تھا اور چار بچے تھے.  ایک ناگہاں حادثے میں شوہر کی موت ہو گئی اور اب اسکے یتیم بچوں پر دست شفقت رکھنے والا کوئی نہ تھا.  قسمت بھی بہت ستم ظریف ہے......... 
خیالات کا اک سمندر لئے اس بیوہ عورت کے گھر کے باہر پہنچا. گھر کیا تھا بلکہ ایک ڈربہ تھا. ایک کمرہ, چھوٹا سا صحن اور ایک خمیدہ سی چار دیواری تھی. دروازہ کھٹکھٹایا تو ایک 5 سالہ بچی باہر آئی. جس کے چہرے پر پریشانی, خوف اور بھوک نمایاں تھی.  میں اس کے چہرے کو تکے جا رہا تھا اور دل ہی دل میں دعا کر رہا تھا کہ اللہ کسی بچے پر ایسا وقت نہ لائے. اس بچی نے ایک پرانا سا جوڑا پہنا ہوا تھا اور شدید سردی میں ایک پھٹی پرانی جرسی پہنی ہوئی تھی . پاؤں برہنہ تھے وہ بھی اس سردی میں کہ پیروں کو جما کہ رکھ دے. میں نے کچھ کہے سنے بغیر راشن والا تھیلا زمین پر رکھا. تھیلے کو دیکھتے ہی وہ بولی,"کیا اس میں کھانے کا سامان ہے؟" 
یہ سُننا تھا کہ میں حیران ہو گیا. ایک بار پھر اس نے یہی سوال دہرایا. میں نے مثبت انداز میں سر ہلایا. وہ بچی خوشی کے مارے چیختی چلاتی ماں کہ طرف بھاگی اور یہ کہے جا رہی تھی "امی فرشتہ آگیا,  امی فرشتہ آگیا,  امی فرشتہ آگیا " اور پھر دو اور چھوٹے چھوٹے بچے خوشی مارے دروازے پر دوڑے چلے آئے. کبھی مجھے دیکھتے کبھی اس تھیلے کو اور خوشی سے لوٹ پوٹ ہوئے جا رہے تھے. 
میری آنکھوں سے آنسو رواں ہونے لگے,  ہونٹ کپکپا رہے تھے اور جسم میں ایک سرد لہر سی دوڑ رہی تھی. یا اللہ یہ کیا ماجرا ہے؟ کیوں یہ بچے مجھ گنہگار کو فرشتہ سمجھ بیٹھے ہیں. انہیں سوچوں میں غلطان تھا کہ ایک خاتون جو ان کی ماں تھی دروازے پر آئی اور دروازے کی اوٹ میں کھڑی ہوکر روہانسی آواز میں یہ کہنے لگی.  
میرے بچے دو دن سے بھوکے تھے. غیرت گوارا نہیں کرتی کہ کسی کے آگے ہاتھ پھیلاؤں. میرے مرحوم شوہر بھی محنت مزدوری کرتے تھے مگر کبھی کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلایا تھا. ان کے چلے جانے کے بعد ان کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں. رشتہ داروں نے ہاتھ کھینچ لئے ہیں اور محلے والے بھی مدد نہیں کرتے.  مگر کبھی کبھی آپ جیسے نیک دل لوگ مدد کر دیتے ہیں.  میں دو دن سے بچوں کو یہ کہہ کر بہلا رہی تھی کہ ایک فرشتہ آئے گا اور ہمارے لئے کھانا لے آۓ گا. اسی لئے یہ آپ کو فرشتہ سمجھ بیٹھے ہیں. اس عورت نے اللہ کے حضور شکرانے کے چند کلمات ادا کئے, مجھے ڈھیر ساری دعائیں دیں اور شکریہ ادا کیا.
 میں وہاں سے واپس ہو لیا, آنسو رُکنے کا نام نہیں لے رہے تھے.  زندگی میں کبھی خود کو اتنا پرسکون محسوس نہیں کیا جتنا آج کر رہا تھا.  اور اندازہ لگایا کہ ایک بے بس انسان کی مدد کرنے سے جو روحانی سکون ملتا ہے وہ کسی اور کام میں نہیں.  
ہمارے اردگرد ایسے بہت سے غربا ہوتے ہیں جو مستحق ہونے کے باوجود کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتے.  مگر مدد کرنے والے ہاتھوں کے منتظر ضرور رہتے ہیں. دو وقت کی روٹی ہی ان کا کل جہاں ہوا کرتی ہے.  ایسے لوگوں کی مدد کرنی چاہیے چاہے وہ ایک وقت کھانا ہی کیوں نہ ہو. 
گھر آیا تو ماں نے پوچھا " بیٹا اتنی رات کہاں چلے گئے تھے بنا بتائے ؟" 
میں بے ساختہ بولا
فرشتہ بننے گیا تھا ۔

Friday 21 January 2022

خواتین اپنی حفاظت کیسے کریں؟

*★ اگر ایک خاتون کسی اجنبی مرد کی موجودگی میں اپنے آپ کو تنہا پائے تو وہ کیا کرے جب وہ ایک اونچی اپارٹمنٹ یا عمارت میں رات گئے لفٹ میں داخل ہوتی ہے؟*
*ماہرین کہتے ہیں: لفٹ میں داخل ہوں۔ اگر آپ کو 13 ویں منزل تک پہنچنے کی ضرورت ہے تو اپنی منزل تک تمام بٹن دبادیں۔* *تاکہ لفٹ ہرمنزل پر رکتی ہوئی جائے کوئی بھی ایسی لفٹ میں آپ پر حملہ کرنے کی جرات نہیں کرے گا جو ہر منزل پر رک جائے۔*
*★ اگر آپ اپنے گھر میں اکیلے ہوں تو کوئی اجنبی آپ پر حملہ کرنے کی کوشش کرے ، کچن میں بھاگ جائیے۔*
*ماہرین کہتے ہیں: آپ اکیلے جانتے ہیں کہ مرچ پاوڈر اور ہلدی پاوڈر کہاں رکھی جاتی ہے۔* *اور چاقو اور پلیٹیں کہاں ہیں۔* *ان سب کو مہلک ہتھیاروں میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ اگر اور کچھ نہیں تو پلیٹوں اور برتنوں کو ہر طرف پھینکنا شروع کردیں۔ انہیں توڑیں۔ چیخیں۔* *یاد رکھیں کہ شور ... چھیڑ چھاڑ کا سب سے بڑا دشمن ہے۔* *وہ بھاگ جائےگا پکڑ نہیں سکے گا۔*

*★ایک اور طریقہ ہے کہ چھوٹی سی ڈبیامیں پسی ہوئی مرچ اپنے پرس میں ساتھ رکھیں جو کھول کر حملہ آور کے چہرےپر پھینکیں اس سے حملہ آور مر تو نہیں سکتا مگر آپکو کچھ سوچنے یا کرنے کیلیئے چند لمحات مل سکتےہیں.*
*★ رات کو ٹیکسی لینا۔*
*ماہرین کہتے ہیں: رات کو ٹیکسی یا آٹو میں سوار ہونے سے پہلے اس کا رجسٹریشن نمبر نوٹ کر لیں۔ پھر اپنے گھر والوں یا دوست کو فون کرنے کے لیے موبائل کا استعمال کریں اور ان کو اس زبان میں تفصیلات بتائیں جو ڈرائیور سمجھتا ہے ۔* *ڈرائیور اب جانتا ہے کہ کسی کے پاس اس کی تفصیلات ہیں اور اگر کچھ غلط ہو گیا تو وہ شدید پریشانی میں پڑ جائے گا۔* *وہ اب آپ کو محفوظ گھر لے جانے کا پابند ہے۔ ایک ممکنہ حملہ آور اب آپ کا حقیقی محافظ ہے!*
*★ کیا ہوگا اگر ڈرائیور کسی گلی میں راستہ تبدیل کر لے اور آپ کو لگتا ہے کہ آپ خطرے کے علاقے میں داخل ہو رہے ہیں؟*
*ماہرین کا کہنا ہے کہ اپنے پرس کی رسی یا اپنی چوڑی اس کے گلے میں لپیٹ کر اسےسختی سے کھینچنے کے لیے استعمال کریں۔ سیکنڈوں میں ، وہ گھٹن اور بے بسی محسوس کرے گا۔ اگر آپ کے پاس پرس یا چوڑی نہیں ہے تو اسے صرف اس کے کالر سے کھینچیں۔ اس کی قمیض کا اوپر والا بٹن ، وہی چال چلے گا۔*
*★ اگر آپ کو راستے میں کسی کی وجہ سے ڈر ہے تو:*
*ماہر ین کہتے ہیں: ایک دکان یا گھر میں داخل ہوں اور اپنی حالت بیان کریں۔ اگر رات ہے اور دکانیں نہیں کھلی ہیں تو اے ٹی ایم باکس کے اندر چلےجائیں۔* *اے ٹی ایم مراکز میں ہمیشہ کلوز سرکٹ ٹیلی ویژن ہوتا ہے۔* *شناخت کے خوف سے ، کوئی بھی آپ پر حملہ کرنے کی جرات نہیں کرے گا۔*
*سب سے بہتر ، ذہنی طور پر چوکس رہنا آپ کے پاس سب سے بڑا ہتھیار ہے۔*
*★اگر آپکاکوئی عزیزگھرسےباہرہے اور کوئی اجنبی یاکم جان پہچان والاشخص آکرکہتاہےکہ آپکےاس عزیزکوحادثہ پیش آگیاہےآپکولےکرجاناہےتوہرگزہرگزمت جائیے*
*★اور سب سے اہم بات کہ بناکسی اشد،سخت اور انتہائی مجبوری کے تنہاسفرنہ کیجیئے یہ سب سے محفوظ طریقہ ہے.*
*★برائے مہربانی ان تمام خواتین کویہ میسج فارورڈ کریں ، جن کی آپ پرواہ کرتے ہیں بیداری پھیلانے کے لیے کیونکہ یہ کم از کم ہےجو ہم ایک سماجی اور اخلاقی مقصد اور اپنی خواتین کی حفاظت کے لیے کر سکتے ہیں۔*
*★ اللہ کریم اپنی رحمت کےصدقے تمام اسلامی بہنوں بیٹیوں کی ایسے درندوں سے حفاظت فرمائے*

*پیشکش 🏷️*
*(خواتین اسلام گروپ)*

مسلمان بھائی کو ڈڑانا



*♥️ آج کـی مُستنــد حــدیـث ♥️*

Thursday 20 January 2022

خلیفہ بلا فصل خلیفہ اوّل ابو بکر صدیق

♥️بارگاہِ سیدنا صدیق اکبر رض میں♥️

دیا اسلام پر پہرا عجب صدیقِ اکبر نے
لیا خاطر میں طوفانوں کو کب صدیقِ اکبر نے 

رسالت پر لٹاؤں کیسے اھلِ خانہ اور خود کو 
اسی دھن میں بِتائے روز و شب صدیقِ اکبر نے

 جدا کرتی ہے رتبے میں وہ غار ثور کی شب جب 
حفاظت کی نبی کی جاں بلب صدیقِ اکبر نے

بُھلا کیسے سکیں گے سرغنے اور پاپ باطل کے 
کہ جن پہ اپنا ڈھایا تھا غضب صدیقِ اکبر نے

ملائک آپ کی سادہ اداؤں پر فدا دیکھے 
کیا تھا زیب تن اک ٹاٹ جب صدیقِ اکبر نے

فقط ابروئے آقا کے اشارے پر لٹاکر کر گھر 
ہمیں ایثار کا بتلایا ڈھب صدیقِ اکبر نے

اُنھیں پہلو ءِ آقاﷺ میں جگہ مل جائے گی صؔارِم
بتایا کرکے آقا کا ادب صدیقِ اکبر نے

""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""
✍🏻: محمد سمیع اللّٰه عباسی صؔارِم

Wednesday 19 January 2022

عزت میں اضافہ



🍀 *معاف کرنے سے عزت میں اضافہ!*
🔹 *آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : صدقے نے مال میں کبھی کوئی کمی نہیں کی اور معاف کرنے سے اللہ تعالیٰ بندے کو عزت ہی میں بڑھاتا ہے اور کوئی شخص (صرف اور صرف) اللہ کی خاطر تواضع (انکسار) اختیار نہیں کرتا مگر اللہ تعالیٰ اس کا مقام بلند کر دیتا ہے۔*🔹
📗 «صحیح مسلم-2588»


❄❄❄❄❄❄❄❄❄❄❄
💜💙💜💙💜💙💜💙💜💙💜

سورہ یوسف آیت 40



💖🌼 *_پــیـغــام قـــرآن_*🌼💖

Tuesday 18 January 2022

عربوں کی تقسیم



واقعہ سودا شجّرِ کھجور

آنکھیں نم کرنے والا اور
ایمان کو تازہ کر دینے والا واقعہ ۔ ۔ ۔ اگر ٹائم ہو تو ضرور پڑہیں پلیز،
سرکارِ دو عالم حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم اپنے صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم کے درمیان تشریف فرما تھے کہ ایک یتیم جوان شکایت لیئے حاضر خدمت ہوا۔ کہنے لگا یا رسول اللہ؛(صلی اللہ علیہ والہ وسلم) میں اپنی کھجوروں کے باغ کے ارد گرد دیوار تعمیر کرا رہا تھا کہ میرے ہمسائے کی کھجور کا ایک درخت دیوار کے درمیان میں آ گیا۔ میں نے اپنے ہمسائے سے درخواست کی کہ وہ اپنی کھجور کا درخت میرے لیئے چھوڑ دے تاکہ میں اپنی دیوار سیدھی بنوا سکوں، اُس نے دینے سے انکار کیا تو میں نے اُس کھجور کے درخت کو خریدنے کی پیشکس کر ڈالی، میرے ہمسائے نے مجھے کھجور کا درخت بیچنے سے بھی انکار کر دیا ہے۔
سرکار صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اُس نوجوان کے ہمسائے کو بلاوا بھیجا۔ ہمسایہ حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اُسے نوجوان کی شکایت سُنائی جسے اُس نے تسلیم کیا کہ واقعتا ایسا ہی ہوا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اُسے فرمایا کہ تم اپنی کھجور کا درخت اِس نوجوان کیلئے چھوڑ دو یا اُس درخت کو نوجوان کے ہاتھوں فروخت کر دو اور قیمت لے لو۔ اُس آدمی نے دونوں حالتوں میں انکار کیا۔
آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنی بات کو ایک بار پھر دہرایا؛ کھجور کا درخت اِس نوجوان کو فروخت کر کے پیسے بھی وصول کر لو اور تمہیں جنت میں بھی ایک عظیم الشان کھجور کا درخت ملے گا جِس کے سائے کی طوالت میں سوار سو سال تک چلتا رہے گا۔
دُنیا کےایک درخت کے بدلے میں جنت میں ایک درخت کی پیشکش ایسی عظیم تھی جسکو سُن کر مجلس میں موجود سارے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم دنگ رہ گئے۔ سب یہی سوچ رہے تھے کہ ایسا شخص جو جنت میں ایسے عظیم الشان درخت کا مالک ہو کیسے جنت سے محروم ہو کر دوزخ میں جائے گا۔ مگر وائے قسمت کہ دنیاوی مال و متاع کی لالچ اور طمع آڑے آ گئی اور اُس شخص نے اپنا کھجور کا درخت بیچنے سے انکار کردیا۔
مجلس میں موجود ایک صحابی (ابا الدحداح) آگے بڑھے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے عرض کی، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم، اگر میں کسی طرح وہ درخت خرید کر اِس نوجوان کو دیدوں تو کیا مجھے جنت کا وہ درخت ملے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے جواب دیا ہاں تمہیں وہ درخت ملے گا۔
ابا الدحداح اُس آدمی کی طرف پلٹے اور اُس سے پوچھا میرے کھجوروں کے باغ کو جانتے ہو؟ اُس آدمی نے فورا جواب دیا؛ جی کیوں نہیں، مدینے کا کونسا ایسا شخص ہے جو اباالدحداح کے چھ سو کھجوروں کے باغ کو نہ جانتا ہو، ایسا باغ جس کے اندر ہی ایک محل تعمیر کیا گیا ہے، باغ میں میٹھے پانی کا ایک کنواں اور باغ کے ارد گرد تعمیر خوبصورت اور نمایاں دیوار دور سے ہی نظر آتی ہے۔ مدینہ کے سارے تاجر تیرے باغ کی اعلٰی اقسام کی کھجوروں کو کھانے اور خریدنے کے انتطار میں رہتے ہیں۔
ابالداحداح نے اُس شخص کی بات کو مکمل ہونے پر کہا، تو پھر کیا تم اپنے اُس کھجور کے ایک درخت کو میرے سارے باغ، محل، کنویں اور اُس خوبصورت دیوار کے بدلے میں فروخت کرتے ہو؟
اُس شخص نے غیر یقینی سے سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی طرف دیکھا کہ کیا عقل مانتی ہے کہ ایک کھجور کے بدلے میں اُسے ابالداحداح کے چھ سو کھجوروں کے باغ کا قبضہ بھی مِل پائے گا کہ نہیں؟ معاملہ تو ہر لحاظ سے فائدہ مند نظر آ رہا تھا۔ حضور پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور مجلس میں موجود صحابہ کرام رضی اللہ عنہما نے گواہی دی اور معاملہ طے پا گیا۔
ابالداحداح نے خوشی سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو دیکھا اور سوال کیا؛ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، جنت میں میرا ایک کھجور کا درخت پکا ہو گیا ناں؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں۔ ابالدحداح سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب سے حیرت زدہ سے ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنی بات کو مکمل کرتے ہوئے جو کچھ فرمایا اُس کا مفہوم یوں بنتا ہے کہ؛ اللہ رب العزت نے تو جنت میں ایک درخت محض ایک درخت کے بدلے میں دینا تھا۔ تم نے تو اپنا پورا باغ ہی دیدیا۔ اللہ رب العزت جود و کرم میں بے مثال ہیں اُنہوں نے تجھے جنت میں کھجوروں کے اتنے باغات عطاء کیئے ہیں کثرت کی بنا پر جنکے درختوں کی گنتی بھی نہیں کی جا سکتی۔ ابالدحداح، میں تجھے پھل سے لدے ہوئے اُن درختوں کی کسقدر تعریف بیان کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اپنی اِس بات کو اسقدر دہراتے رہے کہ محفل میں موجود ہر شخص یہ حسرت کرنے لگا اے کاش وہ ابالداحداح ہوتا۔
ابالداحداح وہاں سے اُٹھ کر جب اپنے گھر کو لوٹے تو خوشی کو چُھپا نہ پا رہے تھے۔ گھر کے باہر سے ہی اپنی بیوی کو آواز دی کہ میں نے چار دیواری سمیت 

یہ باغ، محل اور کنواں بیچ دیا ہے۔

بیوی اپنے خاوند کی کاروباری خوبیوں اور صلاحیتوں کو اچھی طرح جانتی تھی، اُس نے اپنے خاوند سے پوچھا؛ ابالداحداح کتنے میں بیچا ہے یہ سب کُچھ؟
ابالداحداح نے اپنی بیوی سے کہا کہ میں نے یہاں کا ایک درخت جنت میں لگے ایسے ایک درخت کے بدلے میں بیچا ہے جِس کے سایہ میں سوار سو سال تک چلتا رہے۔
ابالداحداح کی بیوی نے خوشی سے چلاتے ہوئے کہا؛ ابالداحداح، تو نے منافع کا سودا کیا ہے۔ ابالداحداح، تو نے منافع کا سودا کیا ہے۔
مسند احمد ٣/١٤٦،
تفسیر ابن کثیر جز ٢٧، صفحہ ٢٤٠ پر بھی یہی واقعہ مختصر الفاظ میں موجود ہے

*آپ ﷺکا حلیہ مبارک*

بسم اللہ الرحمان الرحیم

   *آپ ﷺکا حلیہ مبارک*

➖➖➖🌳➖➖➖
💠 *قدوقامت*
درمیانہ قد تھا یعنی نہ دراز قامت نہ پست قامت تھے۔
💠 *رنگت*
چمکدار۔نہ چونے کی طرح سفید تھی اور نہ بہت سانولی۔
💠 *سر مبارک*
متناسب ۔نہ بہت بڑا نہ بہت چھوٹا۔
💠 *بال*
نہ سیدھے نہ گنگھریالے تھے۔درمیانے تھے۔
💠 *بالوں کی لمبائی*
کانوں اور کندھوں کے درمیان۔
💠 *چہرہ مبارک*
چودہویں کے چاند کی طرح روشن اور چمکدار۔
💠 *آنکھیں*
سفید اور ان میں سرخی مائل ڈورے۔
 💠 *ابرو*
باریک اور باہم ملے ہوءے۔
💠 *پلیکں*
سیاہ اور سرمگیں۔
💠 *پیشانی*
کشادہ اور چمکدار۔
💠 *ناک*
لمبی۔

💠 *دہن*
کشادہ
💠 *دندان مبارک*
کھلے صاف اور چمکدار جیسے موتی اور درمیان میں تھوڑا سا  gap تھا۔
💠 *کان*
متناسب۔
💠 *داڑھی مبارک*
گھنی۔کچھ بال سفید۔
💠 *مونچھیں*
نفیس تراشیدہ اور پست۔
💠 *گردن*
لمبی، اجلی،چاندی کی طرح سفید۔
💠 *کندھے*
چوڑے۔شانے مضبوط ہڈیاں
💠 *بغل*
سفید 
💠 *پیٹ*
پیٹ اور سینہ دونوں برابر۔پیٹ نہ اندر کو دھنسا ہوا نہ باہر کو نکلا ہوا۔
💠 *سینہ مبارک*
چوڑا
💠 *ناف*
سینہ مبارک سے ناف تک بالوں کی باریک لمبی دھاری ۔
💠 *کمر*
سڈول
💠 *ہاتھ*
اعتدال کے ساتھ بڑے ۔ٹھنڈے اورخشبودار۔
💠 *ہتھیلیاں اور انگلیاں*
ہتھیاں اور انگلیاں گداز اور ریشم کی طرح نرم۔
💠 *کلائ*
مرمريں اور دراز۔
💠 *جوڑ*
مضبوط اور کشادہ۔
💠 *تلوے*
گداز۔گوشت سے پر اورقدرے نرم۔
💠 *ایڑی*
کم گوشت والی۔
💠 *پنڈلی*
قدرے پتلی اور سفید چمکدار۔
💠 *چال*
چلتے ہوءے آگے کی طرف جھکاؤ رکھتے اور مضبوطی سے قدم رکھتے۔
💠 *پسینہ*
شفاف موتیوں کی طرح خوشبودار ۔
💠 *جسم*
مشک وانبر سے زیادہ خوشبودار۔
💠 *مہر نبوت*🌟
آپﷺ کے دونوں کندھوں کے درمیان کبوتر کے انڈے کے جیسی مہر تھی۔

نند اور بھاوج کے تعلقات

*🌙جو بیٹیاں شادی کے بعد بھی ماؤں کی دہلیز نہیں چھوڑتیں وہ کس کس کا نقصان کرتی ہیں؟*❣️

*::::ہمارے معاشرے میں جب تک بیٹیاں بیاہی نہ جائیں تب تک ماں باپ کے سینے پر بوجھ رہتی ہیں اور وہی بیٹیاں شادی ہوجانے کے بعد اماں ابا خصوصا اماں کی منظورِ نظر بن جاتی ہیں۔ مائیں لاڈ کے مارے خود شادی شدہ بیٹیوں کو گھر بلا کر یا فون کر کر کے اپنے مسئلوں میں اتنا الجھا دیتی ہیں کہ نہ بیٹیوں کا گھر بس پاتا ہے اور نہ ہی ماں کے گھر میں بیاہ کر آنیوالی اس کی اپنی بہو اپنا گھر بسا پاتی ہے۔ نیچے ہم بیان کریں گے وہ وجوہات جن کی وجہ سے اچھے بھلے بسے بسائے گھر ٹوٹ جاتے ہیں*
 
*بھابھی سے مقابلہ*
*شادی شدہ بیٹیاں بار بار گھر آکر اپنی زندگی کا موازنہ اپنے بھائی بھابھی سے کرتی ہیں مثال کے طور پر اگر بھائی بھابھی کے مقابلے میں ان کی مالی حالت اچھی ہے تو وہ اس کا بلند آواز میں اظہار کریں گی جیسے کہ ارے ہم تو کل فلاں ہوٹل کھانا کھانے گئے تھے، بھئی ہم تو چھٹیاں منانے فلاں مقام پر جائیں گے ۔ اس طرح کی باتوں کا مقصد اپنی امارت جتانا اور اگلے کو نیچا دکھانا ہوتا ہے جس کی وجہ سے بھاوجوں کے دل میں نفرت ، حسد اور رقابت کے جذبات بیدار ہوجاتے ہیں اور اگر معاملہ اس کے برعکس ہو یعنی بیٹیوں کے مالی حالات بھابھیوں کے مقابلے میں خراب ہوں تو پھر وہ بھابھی کے پاس موجود ہر چیز سے حسد کرتی ہیں ۔ ماں اور بھائی سے اسی چیز کی ضد کرتی ہیں جو ان کی بھابھی کے پاس موجود ہو۔ نہیں تو اسی چیز کا مطالبہ اپنے شوہر سے بھی کرتی ہیں جو اگر ہاتھ تنگ ہونے کی وجہ سے پورا نہ کرسکے تو لڑائی جھگڑے کا سبب بن جاتی ہے۔*
 
*نجی معاملات میں مداخلت*
*کون کہاں کھانا کھانے گیا؟ کب واپس آیا؟ امی کھانا آپ نے* *کیوں بنایا ؟ بھابھی اتنی دیر تک کیوں سوتی ہیں ؟ بھائی نے بھابھی کو سر پر چڑھایا ہوا ہے ۔ یہ وہ سوالات اور* *اعتراضات ہیں جو شادی شدہ بیٹیاں اپنے میکے آکر اپنی ماں اور گھر والوں کے گوش گزار کرتی ہیں اور ظاہر ہے اپنے نجی معاملات میں مداخلت سگے بہن بھائیوں کو برداشت ہو بھی جائے تو بھابھی کو کیونکر ہوگی۔ ساس اور نندوں کو یہ بات سمجھنی چاہئیے کہ بہو ہو یا بھابھی ایک آزاد انسان ہے جس کے اپنے خیالات اور زندگی گزارنے کے طریقے ہوتے ہیں ان پر بات کرنے ، روکنے ٹوکنے یا* *بلاوجہ ان کے معاملات میں ٹانگ اڑانے سے بدمزگی ہی پیدا ہوتی ہے۔ کہیں نند بھاوج کے آپس میں اختلافات اتنے بڑھ جاتے ہیں کہ وہ ایک دوسرے کی شکل تک دیکھنے کی روادار نہیں رہتیں تو کہیں نند ، بھائی اور بھابھی کے درمیان ناچاقی کی وجہ بن جاتی ہے ایسی کئی مثالیں ہیں جہاں نندوں کے کان بھرنے سے بھابھیوں کا بسا بسایا گھر اجڑ گیا اور نتیجہ طلاق کی صورت میں نکلا۔*

*اپنے گھر، شوہر اور سسرال سے لاتعلق ہوجانا*
*اس تمام صورتحال میں جب لڑکیاں اپنے میکے سے لو لگالیتی ہیں تو ان کی توجہ ان کے اپنے گھر یا سسرال سے پوری طرح ہٹ جاتی ہے۔ شوہر دفتر کب گیا، اس نے ناشتہ کیا یا نہیں ،رات میں آکر کیا کھائے گا، سسرال میں ان کی اپنی زمے داریاں کیا ہیں ، توجہ ان باتوں سے ہٹ کر صرف میکے پر ہی مرکوز رہتی ہے جن کی وجہ سے وہ دھیرے دھیرے سسرال میں اپنا مقام کھو دیتی ہیں اور شوہر کے دل سے بھی اتر جاتی ہیں۔*
 
*قدر کھو دیتا ہے ہر روز کا آنا جانا*
*شادی شدہ بیٹی یا نند کبھی کبھار میکے جائے تو ماں کے ساتھ ساتھ بھابھی بھی خوب آؤ بھگت کرتی ہیں ۔ طرح طرح کے کھانے اور پکوان دسترخوان پر سجائے جاتے ہیں ۔ دل میں نند کے لئے کیسے بھی جذبات ہوں لیکن یہ سوچ کر کہ چلو تھوڑی دیر کے لئے آئی ہے منہ پر میٹھی مسکان سجائے بھابھی نند سے خوب نرمی اور اخلاق سے پیش آتی ہیں جس سے بیٹی کو عزت اور مان کا احساس ہوتا ہے جبکہ روز روز کے جانے سے یہ قدر مانند پڑجاتی ہے اور اکثر گھر کا دال دلیہ بھی خود جا کر باورچی خانے سے نکالنا پڑتا ہے اور اس دوران اگر شوہر بھی ساتھ ہو تو رہی سہی عزت بھی جاتی رہتی ہے۔*
 
*بچوں کی بربادی*
*میکے میں ہمیشہ آباد رہنے کی چاہ کرنے والی لڑکیوں کے بےحسانہ رویے کا اصل بھگتان ان کے اپنے بچے بھگتتے ہیں ۔ بچے جو ہر وقت ماں باپ کی توجہ کے طلبگار ہوتے ہیں وہ بھی ماں کی لاپروائی کا شکار ہوجاتے ہیں جس کا نتیجہ یا تو خراب صحت یا خراب تعلیمی کاردرگی کی صورت میں نکلتا ہے یا پھر ماں کی دیکھا دیکھی وہ بھی دنگے فساد اور بد زبانی والی روش اپنا لیتے ہیں۔*
 
 
*اس مسئلے کی اصل ذمہ دار لڑکیوں کی اپنی مائیں ہوتی ہیں جو بیٹیوں کو بار بار فون کر کے یا گھر بلا کے ان کی توجہ ان کے گھر سے بھٹکا تی ہیں ۔ ماؤں کو کوشش کرنی چاہیے کہ شادی شدہ بیٹیوں کو ان کے اپنے گھر ، شوہر اور بچوں پر توجہ دینے کی نصیحت کریں ، نہ کہ ان کو اپنے گھر کے مسائل اور ساس بہو کے جھگڑوں میں شامل کر کے ان کو ذہنی طور پر پریشان کریں۔ مائیں اس بات کی اہمیت سمجھیں کہ شادی کے بعد ان کی بیٹیوں کا اصل گھر ان کے شوہر کا گھر ہے نہ کہ والدین کا*

ہر حال میں شکر ادا کرنا



برتن میں سانس



 *🌙گھر کی عورتوں کا صحیح تعارف*❣️


*اعظمی رائٹر✍🏻*

*گروپ۔اعظمی ریڈرز📚*


*اکثر خواتین جب اپنا تعارف کرواتی ہیں تو کہتی ہیں کہ میں *"House Wife"* ہوں*

*پوچھا جائے کہ وہ کیا ہوتا ہے؟*

*تو جواب ملتا ہے وہی جو سارا دن گھر میں ہوتی ہیں اور کبھی کچن، کبھی کپڑوں، کبھی ماسی، اور اکثر بچوں کو* *سنبھالنے میں مصروف رہتی ہیں جو ادھر سے ادھر دن بھر بھاگتی رہتی ہیں*

*میں نے کہا کہ اس تعریف کے اعتبار سے تو یہ کوئی* *house fly* *جیسی چیز لگ رہی ہے۔۔۔۔۔۔۔*


*آپ اپنے تعارف میں یہ کیوں نہیں کہتیں کہ میں*  *Nation Builder* *ہوں، میں اس امت* *اور قوم کے مستقبل کی معمار ہوں، میں وہ عظیم کام کر رہی ہوں جس میں کوئی چھٹی نہیں ہوتی، کوئی* *annual leave, medical leave, casual leave* *نہیں ہوتی*

*میں وہ ہوں جو عمر بن عبدالعزیز، محمد بن قاسم،* *صلاح الدین ایوبی، طارق بن زیاد، سلطان فاتح، نور الدین زنگی، امام بخاری، امام ابو حنیفہ، ٹیپو سلطان، شیر شاہ سوری، علامہ حمید الدین* *فراہی ،علامہ محمد اقبال، علامہ شبلی نعمانی، محمد علی جوہر، مولانا ابو الکلام آزاد، ڈاکٹر ذاکر حسین اور ایسے ہزاروں لوگوں کے پیچھے ہوتی ہے*


*جس کی قربانیوں اور مشقتوں کے بغیر ایسے گوہروں سے ہم نہ *فائدہ اٹھا پاتے نہ روشناس ہوتے*

*ہم ان میں سے کسی کی بھی ماں کا نام شاید نہیں جانتے* *لیکن آپ کا کیا خیال ہے وہ خواتین جو ان اور ان جیسے عظیم لوگوں کی مائیں اور بیویاں تھیں، کیا ان کی قربانیوں اور* *contribution*  *کے بغیر انہوں نے وہ کام کر لیئے جن کا آج اک زمانہ معترف ہے*

*سال کے 365 دن خواتین کے دن ہیں ان کا ماں ہونا، بیوی ہونا، بیٹی اور بہن ہونا چھوٹی نہیں بہت بڑی بات ہے*

 *اتنی بڑی بات کہ میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے لئے اپنی چادر بچھا دیا کرتے تھے*

*اللہ تعالی ہمیں اپنا مقام اور* *مرتبہ پہچاننے کی توفیق عطا فرمائے*

 *آمین یارب العالمین❤️*


*پیشکش 🏷️*

*(پرسکون ازدواجی زندگی)*


❣️🌙❣️🌙❣️🌙❣️🌙❣️🌙❣️